ترتیب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی|
آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ شہر اراک کے ایک دیندار اور پاکیزہ خاندان میں 24 جمادی الثانی 1312ھ ق میں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام محمد علی رکھا۔ آپ نے بچپن ہی سے تعلیم و تعلم کے ساتھ غیر معمولی شغف اور رغبت کا مظاہرہ کیا۔ خود اپنے بچپن کے رجحانات کے بارے میں فرماتے ہیں: بچپن ہی کے ابتدائی ایام سے، کم عمری کے باوجود، مجھے کتاب اور لکھنے پڑھنے کا عجیب شوق تھا۔ یاد ہے کہ ہمارے گھر میں ایک چھوٹی سی کتاب تھی جس میں سورۂ حمد لکھی تھی۔ میں اس وقت پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا اور نہ ہی سمجھتا تھا، لیکن پھر بھی اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر بار بار اس کے اوراق پلٹتا رہتا اور اپنے طور پر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔
آپ کے والد حجۃ الاسلام والمسلمین مرحوم حاج احمد آقا، جو میرزا آقا کے نام سے مشہور تھے، مصلح آباد کے رہنے والے اور حاج میرزا آقا فراہانی کے نام سے معروف تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ سامرہ میں قیام کیا اور وہاں میرزائے شیرازی (آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہو کر کسبِ فیض کیا۔ اس کے بعد ملا محمد ابراہیم انجدانی اور شیخ اصفہانی جیسے مربیوں کی نگرانی میں تربیت پائی۔
حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی رحمۃ االلہ علیہ اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں: "میرے والد میرے لئے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک تھے۔ وہ مرحوم ملا محمد ابراہیم انجدانی اور شیخ اصفہانی کے تربیت یافتہ تھے۔ مرحوم انجدانی اپنے زمانے کے زاہدین میں سے تھے اور مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ کے حامل تھے۔ میرے والد بتایا کرتے تھے کہ آخوند انجدانی بار بار مجھ سے فرمایا کرتے تھے: تم ہماری مسجد کا ستون ہو۔ یعنی جب بھی وہ مسجد میں آتے، میرے والد کو حالتِ قیام اور نماز میں مشغول پاتے تھے۔"
آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں ان کے فرزند حجۃ الاسلام والمسلمین حاج شیخ ابو الحسن مصلحی فرماتے ہیں: "آپ کے باعلم ہونے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ والدِ محترم کے مکہ مکرمہ جانے سے پہلے میں گلیوں میں کھیلتا پھرتا تھا اور 11 برس کی عمر تک مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ سن 1324ھ میں میرے والد حج کے لئے تشریف لے گئے۔ اس زمانے میں ‘عماد’ نامی ایک شخص تھے جو فاضل، صاحبِ علم اور خوش خط تھے۔ میرے والد نے ان پر جو احسانات کئے تھے، ان کے بدلے میں انہوں نے میری تعلیم و تربیت کی بھرپور کوشش کی اور مجھے پڑھنا لکھنا سکھایا۔ چنانچہ ان 9 مہینوں کے دوران میں نے پڑھنا اور لکھنا سیکھ لیا۔
آقاے عماد نے مجھ سے کہا کہ تمہیں کتاب گلستانِ سعدی لکھنی چاہیے۔ انہوں نے پہلی سطر خود لکھی اور باقی تمام سطور میں نے لکھیں، پھر اس کتاب کی جلد بندی بھی کی گئی۔ جب میرے والد مکہ مکرمہ سے واپس آئے تو اس وقت میری عمر 12 برس تھی۔ میں نے کتاب گلستان اپنے والد کے سامنے پیش کی۔ والد نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ آقاے عماد نے کہا: آپ اسے کھول کر دیکھیں۔ جب انہوں نے کتاب کھولی تو دیکھا کہ گلستان نہایت خوبصورت خط میں لکھی ہوئی ہے۔ جب آخری صفحہ دیکھا تو اس پر لکھا تھا: "محمد علی بن احمد"
میرے والد کو بڑی حیرت ہوئی، پوچھا: کیا تم نے یہ لکھی ہے؟ کیسے لکھی؟ آج بھی یہ گلستان کی کتاب ان کی یادگار کے طور پر کتب خانے میں محفوظ ہے۔
تدریس
عظیم شیعہ مرجعِ تقلید کا تدریسی اسلوب 35 برس سے زائد یہ تھا کہ وہ نہایت پیچیدہ علمی مباحث کو شیریں گفتاری اور خوبصورت اندازِ بیان کے ساتھ پیش کرتے اور انہیں آسانی سے قابلِ فہم بنا دیتے تھے۔ ان کے درسی انداز کی نمایاں خصوصیات میں تکرار اور غیر ضروری تفصیل سے اجتناب شامل تھا۔ وہ مختصر مگر بامعنی کلام کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ طالبِ علم کو درس میں حاضر ہونے سے پہلے اشکالات کے مقامات کا مطالعہ کر کے انہیں حل کر لینا چاہیے، پھر بحث میں شرکت کرنی چاہیے۔ اسی بنا پر ان کا درس مبتدی طلبہ کے لئے گراں اور مشکل ہوتا تھا اور صرف محنتی محققین ہی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ ان کی بحث نہایت اعلیٰ علمی سطح کی حامل ہوتی تھی۔
تالیفات
آیۃ اللہ العظمیٰ اراکیؒ نے اپنی تصنیفات، تقریرات اور تحریروں کے بارے میں ایک گفتگو کے دوران اس طرح فرمایا: "مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریمؒ کے اراک تشریف لانے سے پہلے میں نے ایک سال تک مرحوم سلطان العلماءؒ کے درس کی تقریرات تحریر کی۔ اس کے بعد مرحوم حاج شیخؒ کے دروس کی بھی تقریرات لکھیں؛ ان میں کتابِ طہارت کا کچھ حصہ اور اصولِ فقہ کے تقریباً تین یا چار دورے شامل ہیں جو ناتمام رہ گئے۔ اسی طرح فقہ میں ان کے درسِ مکاسب، بحثِ بیع اور خیارات کو بھی تحریر کیا ہے، جن کے بعض حصے ناتمام ہیں۔ کبھی کبھی آقاے خوانساریؒ کے مباحث بھی لکھ لیا کرتا تھا۔ مرحوم حاج شیخؒ نے اراک میں ایک بحثِ ارث بھی بیان فرمائی تھی، اسے بھی میں نے تحریر کیا ہے۔"
آپ کی چند تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد سلطان العلماء اراکیؒ کے درس کی تقریرات۔
2۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائریؒ کے درسِ فقہ کی تقریرات، جن میں کتاب الطہارة، رسالہ فی الاجتہاد والتقلید، رسالہ فی الولایہ، الارث،
المکاسب المحرّمہ، کتاب البیع، کتاب الخیارات شامل ہیں۔
3۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائریؒ کے درسِ اصولِ فقہ کی تقریرات (تین دورے)۔
4۔ آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائریؒ کی کتاب "درر الاصول" پر حاشیہ، جو اسی کتاب کے حواشی میں شائع ہوا ہے۔
5۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد تقی خوانساریؒ کے درسِ فقہ کی تقریرات، کتاب الطہارة۔
6۔ کتاب عروة الوثقی پر حاشیہ۔
7۔ کتاب عروة الوثقی کی مفصل شرح — بابِ طہارت۔
8۔ توضیح المسائل (جو بارہا شائع ہو چکی ہے)۔
9۔ مناسکِ حج۔
10۔ رسالۂ استفتاءات۔
11۔ اپنے استاد سید نورالدین اراکیؒ کی تفسیر "القرآن و العقل" پر مقدمہ، یہ تفسیر ان کی توجہ اور اہتمام سے شائع ہوئی۔
12۔ کتاب النکاح و الطلاق۔
خدمات
1۔ حوزہ علمیہ قم
آپ کے انگنت دینی، مذہبی، علمی، تعلیمی اور سماجی خدمات میں سے ایک اہم خدمت حوزۂ علمیہ قم کے مؤسس (بانی) کے ساتھ مل کر قم میں شیعہ حوزۂ علمیہ کے قیام میں بھرپور حصہ لینا ہے۔ اس گھٹن اور جبر کے دور میں اس درد مند استاد نے اپنی مکمل تائید اور حمایت کے ذریعہ اس حوزہ کی کامیابی اور ثمر آور ہونے میں نہایت جدوجہد کی۔
2۔ نماز جمعہ
نمازِ جمعہ کے بارے میں آپ کا فتویٰ، جس کے مطابق عصرِ غیبتِ حضرت ولیِ عصر عجل اللہ فرجہ الشریف میں نمازِ جمعہ واجبِ عینی ہے، انہیں اس بات پر آمادہ کرتا تھا کہ وہ ہر جمعہ اس سنت کو قائم کریں۔ خود انہوں نے نمازِ جمعہ کے قیام اور اس کے سماجی و سیاسی اثرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں یوں فرمایا: "میں نمازِ جمعہ کو واجبِ عینی سمجھتا ہوں اور کئی برسوں تک اپنے اسی حکم کے مطابق اسے قائم کرتا رہا ہوں؛ یہاں تک کہ جب میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھے آدمی کے لئے یہ مشکل ہو گیا ہے تو میں نے معذرت کی کہ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔"
3۔ اقامہ نماز جماعت
آیۃ اللہ العظمیٰ اراکی رحمۃ اللہ علیہ کی امامتِ جماعت کئی دہائیوں (تقریباً 35 برس) تک جاری رہی۔ وہ نمازِ جماعت کے محراب میں اہلِ شوق کے لئے قربِ الٰہی کے وصال کا مرکز اور اس روحانی عروج و عرفانی اجتماع میں شرکت کے آرزو مند سالکوں کی تمناؤں کو پورا کرنے والے تھے۔ ابتدا میں آپ نے آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائریؒ کے مقبرے کے پہلو میں نمازِ جماعت قائم کی، اس کے بعد بقعۂ شاہ عباسی میں نمازِ ظہر و عصر اور مدرسۂ فیضیہ میں نمازِ مغرب و عشاء کی امامت فرماتے رہے۔ آپ کی نمازِ جماعت اپنے مخصوص روحانی حال و فضا کے ساتھ مؤمنین کے حقیقی عروج کی زندہ مثال تھی۔
4۔ اسلامی انقلاب کی حمایت
آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللّٰہ علیہ مجاہد علماء سے گہری محبت رکھتے تھے اور ان کے لئے بے انتہا احترام کے قائل تھے۔ اسی بنیاد پر آیۃ اللہ سید نورالدین اراکی رحمۃ اللہ علیہ اور سید محمد تقی خوانساری رحمۃ اللہ علیہ کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ آپ نے متعدد بار آیۃ اللہ خوانساری کے ساتھ مل کر طاغوت کے خلاف قیام اور جدوجہد کی تجویز آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کی تھی۔
اسی طرح شہید نواب صفوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی زیر قیادت فدائیانِ اسلام کی بھی مکمل حمایت فرمائی۔ لہذا جب رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے جون 1963 میں اپنی تحریک کا آغاز کیا تو آپ ہمیشہ امام خمینی قدس سرہ کے حامی اور مددگار رہے۔ امام خمینی قدس سرہ کی جلاوطنی کے دوران آپ نے نجفِ اشرف میں ان سے ملاقات بھی کی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی آپ مسلسل حضرت امام خمینی قدس سرہ اور انقلاب کی حمایت و تائید کا اعلان کرتے رہے۔ حالانکہ آپ عمر میں حضرت امام خمینی قدس سرہ سے تقریباً دس سال بڑے تھے، لیکن اس کے باوجود تحریکِ اسلامی کی تقویت اور تائید میں ایک لمحے کے لئے بھی توقف نہیں کیا اور تمام حساس مواقع پر، جن میں انتخابات بھی شامل ہیں، مکمل طور پر حاضر رہے۔
اخلاقی خصوصیات
آپ سادات کا خاص احترام فرماتے تھے۔ آپ نہ تعریف کے طالب تھے اور نہ ہی شہرت کے مسافر تھے بلکہ اطاعت رب آپ کا نصب العین تھا۔
آیۃ اللہ سید محسن خرازی فرماتے ہیں: “ہم تقریباً 28 برس تک ان سے رابطے میں رہے؛ ہم نے ان میں ذرّہ برابر بھی نفسِ امّارہ (خود پسندی) نہیں دیکھی۔ یہاں تک کہ وہ مرجعیت قبول کرنے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے، اگرچہ آپ اہل اور صاحب اختیار تھے، لیکن نہ کسی کے آگے بڑھ جانے سے رنجیدہ ہوتے تھے اور نہ اپنی پیش قدمی پر خوش ہوتے تھے۔ یہ سب ان کے نفسِ مطمئنہ کا نتیجہ تھا۔
ان کی ہم نشینی بہت مفید ہوا کرتی تھیں۔ وہ لوگوں کے ساتھ انس و الفت رکھتے تھے؛ ہر مجلس میں گفتگو کرتے اور واقعات، کرامات، اخلاقیات اور معارف بیان فرماتے تھے۔ ان کی کسی مجلس میں کبھی لغو یا بے فائدہ بات نہیں دیکھی گئی؛ بلکہ ہمیشہ وعظ، نصیحت اور تعلیم ہوتی تھی۔
وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ انتہائی تواضع اور انکساری کا برتاؤ کرتے تھے۔ بہت قدر شناس تھے۔ طویل عرصے تک مدرسۂ فیضیہ میں نماز مغربین با جماعت قائم کرتے رہے۔ جس میں ہم اکثر شریک ہوتے تھے۔ میں عموماً دیکھتا تھا کہ نماز کے بعد مدرسۂ فیضیہ سے نکل کر ایوانِ آئینہ (صحن امام علی رضا علیہ السلام روضہ مبارک حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا) کے قریب ایک قبر پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے تھے۔
ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا: کیا یہ قبر آپ کے کسی رشتہ دار کی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ ہر رات ان کے لئے فاتحہ کیوں پڑھتے ہیں؟ فرمایا: انہوں نے مجھے امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کی ایک منقبت کا واقعہ سنایا تھا، اسی وجہ سے وہ مجھ پر حق رکھتے ہیں۔”
جب ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اکثر دیکھا کہ اہلِ بیت علیہم السلام کی مدح اور مراثی پر مشتمل اشعار پڑھتے اور توسل کرتے تھے۔ عبادت کو وہ بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اذانِ فجر سے پہلے بیدار ہو جاتے تھے، روزانہ ایک پارہ قرآنِ کریم تلاوت کرتے تھے اور ماہِ رمضان میں روزانہ 3 پارے پڑھتے تھے۔ شب جمعہ کی نوافل میں قنوت میں دعائے کمیل پڑھتے تھے۔ قرآنِ کریم سے انہیں بے حد محبت تھی اور وہ کثرت سے تفاسیر کا مطالعہ کرتے تھے، خصوصاً تفسیر "جوامع الجامع" مطالعہ کرتے تھے۔
ضعیفی میں بھی ان کا حافظہ بہت قوی تھا، حتی ابتدائی کتب کی عبارتیں بھی آپ کے حافظے میں تھیں۔
عبادتیں واجب ہوں یا مستحب ان کی پابندی کرتے تھے اور اہل بیت علیہم السلام سے عشق اور توسل فرماتے تھے کہ جب بھی کسی معصوم کا نام لیتے تو آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوتے تھے۔
وفات
25 جمادی الثانی 1415 ہجری کو وفات پائی اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک قم میں دفن ہوئے۔









آپ کا تبصرہ